کیا نیشنل کانفرنس اہلِ کشمیر کی امیدوں پر پورا اُتر پائے گی؟

کیا نیشنل کانفرنس اہلِ کشمیر کی امیدوں پر پورا اُتر پائے گی؟
یہ سرزمینِ کشمیر کی کہانی، جہاں پہاڑوں کی چوٹیوں سے بہتے جھرنے گواہ ہیں اُس درد کی جو صدیوں سے اس وادی کے سینے میں پل رہا ہے۔ یہ وادی جو گلابوں کی خوشبو میں لپٹی ہوئی ہے یہاں کے لوگوں کی تکلیفوں کی چیخیں آج بھی ان پہاڑوں میں گونجتی ہیں۔ آج جب ہم کشمیر اور پیر پنچال کے علاقوں کی بات کرتے ہیں تو ہمیں یہاں کے لوگوں کا عزم، اُن کی آواز اور اُن کی اُمیدیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اور یہ سب کچھ نیشنل کانفرنس کے جھنڈے تلے جڑ چکا ہے۔
کشمیر اور پیر پنچال کا عزم، نیشنل کانفرنس کا انتخاب:کشمیر اور پیر پنچال کے لوگوں نے ایک بار پھر نیشنل کانفرنس پر بھروسہ کیا، اپنی دعاؤں اور تمناؤں کے ساتھ ان کے ہاتھوں میں اپنی تقدیر کا قلم تھمایا۔ وہ جانتے ہیں کہ نیشنل کانفرنس ان کی آواز کودہلی تک پہنچانے میں کامیاب ہوگی۔ آرٹیکل 370 اور 35-A کے مسائل کو حل کر نے کے لئے ہل پر اعتبار کیاہے۔یہی وجہ ہے کہ حالیہ انتخابات میں کشمیر اور پیر پنچال کے لوگوں نے نیشنل کانفرنس کو ووٹ دیا، اُمیدوں کے دیپ جلائے اور اپنے مسائل کی گٹھری اُن کے کندھوں پر رکھ دی۔ وہ چاہتے ہیں کہ نیشنل کانفرنس اُن کے وہ حقوق بحال کرنے میں مدد کرے گی جو پامال ہوگئے ہیں۔لیکن یہ بات طے ہے کہ عوام کی اُمیدیں بہت بھاری ہوتی ہیں۔ نیشنل کانفرنس کے لیڈران نے عوام کو یقین دلایا کہ وہ ان کی آواز بنیں گے، اُن کے مسائل کا حل تلاش کریں گے، اور سب سے بڑھ کر اُن کے حقوق کی بحالی کی جدوجہد میں پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ لیکن کیا یہ ممکن ہوگا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب وقت کے سینے میں چھپا ہوا ہے۔یہ وقت کا امتحان ہے، اور نیشنل کانفرنس کا بھی۔ کیا وہ اُن وعدوں کو پورا کر پائیں گے جو انہوں نے اپنے جلسوں میں کیے تھے؟ کیا اُن کے لیڈران کا عزم مضبوط رہے گا یا یہ صرف سیاست کا کھیل بن کر رہ جائے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر کشمیری کے دل میں اُبھرتے ہیں۔آرٹیکل 370 کی بات کریں، تو یہ صرف ایک قانون نہیں بلکہ کشمیر کی شناخت، اُس کی عزت اور اُس کی خودمختاری کی علامت تھا۔ جب 370 اور 35-A کو ختم کیا گیا تو کشمیر کے دل میں ایک درد اُبھر آیا جیسے پہاڑوں کی وادیاں اچانک خاموش ہو گئیں۔ نیشنل کانفرنس نے وعدہ کیا کہ وہ اس قانون کی بحالی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ محض ایک سیاسی نعرہ تھا، یا واقعی اس میں عوام کی بھلائی کی نیت شامل تھی؟لوگوں کا ایک اور خواب ہے، ریاستی حیثیت کی بحالی۔ کشمیر کے لوگ چاہتے ہیں کہ ان کا ریاستی تشخص بحال ہو اُن کے حقوق واپس آئیں اور اُن کے مسائل کا حل ریاستی اسمبلی میں ہو۔ نیشنل کانفرنس نے انہیں یقین دلایا ہے کہ وہ ریاستی حیثیت کی بحالی کے لیے لڑیں گے۔ لیکن کیا وہ اپنے اس وعدے پر قائم رہیں گے؟ کیا وہ دہلی کے دروازے پر دستک دیں گے اور اپنے عوام کی ترجمانی کریں گے؟یہاں کے لوگوں نے نیشنل کانفرنس کو اپنی محبت دی، اپنا اعتماد دیا، اور اپنی آنکھوں میں خواب سجائے۔ یہ محبت وہ ہے جو سیاست کی سرد ہوا میں بھی گرمائش کا احساس دیتی ہے۔ لیکن نیشنل کانفرنس کے لیے یہ محبت صرف نعروں کی حد تک نہیں رہنی چاہیے، بلکہ انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اپنے عوام کے لیے واقعی دل سے لڑنے والے ہیں۔یہ سب کچھ وقت پر منحصر ہے۔ وقت ہی بتائے گا کہ نیشنل کانفرنس اپنے وعدوں پر کتنا کھرا اُترتی ہے۔ کیا وہ واقعی عوام کی توقعات پر پورا اُتر سکیں گے، یا یہ سب کچھ محض سیاست کا کھیل بن کر رہ جائے گا؟ یہ وقت کا امتحان ہے، اور نیشنل کانفرنس کا بھی۔ اگر وہ اپنے وعدوں کو پورا کرتے ہیں، تو یہ ایک نئی صبح کی نوید ہو گی، اور اگر وہ ناکام ہوتے ہیں، تو یہ اُمیدوں کا سورج غروب ہو جائے گا۔کشمیر اور پیر پنچال کے لوگوں کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں، لیکن وہ اس بات کو بھی جانتے ہیں کہ دعاؤں کے ساتھ جدوجہد بھی ضروری ہے۔ نیشنل کانفرنس کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ عوام نے انہیں جو ذمہ داری سونپی ہے، وہ محض ایک سیاسی سیٹ جیتنے کی نہیں بلکہ اُن کے خوابوں کی حفاظت کی ہے۔ عوام کی اُمیدیں اور دعائیں ان کے ساتھ ہیں، لیکن انہیں اپنی محنت اور دیانتداری سے ان اُمیدوں کو پورا کرنا ہوگا۔سوچوں کے سمندر میں یہ فقیر کی سوچ ہے کہ وقت سب کچھ ثابت کرے گا۔ نیشنل کانفرنس کو اپنی سمت درست رکھنی ہوگی اور اپنے عوام کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں، تو شاید یہ وادی پھر سے خوشبوؤں سے بھر جائے، اور اگر نہیں، تو یہ ایک اور ناکامی کی کہانی بن جائے گی۔

اپنا تبصرہ لکھیں