مارچ سیشن امتحانات: کشمیر کے لیے نامناسب اور دوبارہ نومبر سیشن کی ضرورت
کشمیر کا خطہ اپنی قدرتی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اپنے منفرد موسمی حالات کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہاں کی شدید سردیاں اور لمبی برف باری نے ہمیشہ یہاں کے رہائشیوں کی زندگی اور تعلیمی نظام کو متاثر کیا ہے۔ حالیہ برسوں میں جموں و کشمیر میں تعلیمی سیشن کا آغاز مارچ سے کیا گیا، جس کا مقصد ملک کے دیگر حصوں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنا تھا۔ تاہم، اس تبدیلی کے باعث مقامی موسمی حالات اور طلباء کی ضروریات کو نظرانداز کیا گیا، جس کے نتیجے میں مارچ سیشن طلباء، والدین، اور اساتذہ کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ اس پس منظر میں، حکومت کو اس معاملے پر دوبارہ غور کرنا چاہیے اور نومبر سیشن کی طرف واپس جانے کا فیصلہ کرنا چاہیے تاکہ تعلیمی عمل کو بہتر بنایا جا سکے۔
کشمیر میں موسم سرما کی شدت دسمبر سے شروع ہوتی ہے اور فروری کے اختتام تک برقرار رہتی ہے۔ اس دوران درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بھی نیچے چلا جاتا ہے اور وادی میں برف کی موٹی تہہ جم جاتی ہے۔ سردیوں کے اس موسم میں روزمرہ زندگی کی مشکلات کے ساتھ ساتھ تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنا بھی نہایت دشوار ہوتا ہے۔ مارچ سیشن کے تحت تعلیمی سال کے آغاز میں جب طلباء کو اسکول جانے کے لیے واپس بلایا جاتا ہے، تو وہ سخت سردیوں کے ساتھ ساتھ امتحانات کی تیاری کے دباؤ کا سامنا کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں طلباء کے لیے تعلیمی میدان میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔
مارچ سیشن کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تعلیمی سال کے آغاز اور اختتام کے درمیان وقت بہت کم ہوتا ہے۔ طلباء کو نئے تعلیمی سال کی کتابیں اور نصاب پورا کرنے کے لیے محض تین سے چار ماہ ملتے ہیں، اور انہیں امتحانات کی تیاری کا بوجھ بھی اسی قلیل وقت میں اٹھانا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس، جب نومبر سیشن کا رواج تھا، تو طلباء کو پورا تعلیمی سال ملتا تھا، جس میں وہ آرام دہ انداز میں اپنی تعلیم مکمل کر سکتے تھے۔ نومبر سیشن میں تعلیمی سال کا آغاز اس وقت ہوتا تھا جب موسم معتدل ہوتا تھا، اور بچے سکون سے اسکول جا سکتے تھے۔ اس کے برعکس، مارچ سیشن کے دوران سردیوں کی شدت کے ساتھ تعلیم جاری رکھنا، طلباء کے لیے جسمانی اور ذہنی دباؤ کا باعث بنتا ہے۔
سردیوں کے موسم میں طلباء کو اسکول جانا نہ صرف ان کے لیے مشکل ہوتا ہے بلکہ والدین کے لیے بھی ایک چیلنج بن جاتا ہے۔ انہیں بچوں کو سردی سے بچانے کے لیے گرم کپڑے، ہیٹر، اور دیگر انتظامات کرنے پڑتے ہیں، جو اقتصادی بوجھ کے ساتھ ساتھ بچوں کی صحت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، برف باری کی وجہ سے نقل و حمل میں مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں، جس کی وجہ سے بچے اکثر اسکول نہیں جا پاتے اور ان کی تعلیم متاثر ہوتی ہے۔ ایسے حالات میں تعلیمی نظام کا مقصد، یعنی طلباء کو معیاری تعلیم فراہم کرنا، پوری طرح سے حاصل نہیں ہو پاتا۔
اساتذہ کے لیے بھی مارچ سیشن میں تعلیم دینا ایک مشکل کام بن جاتا ہے۔ سردیوں کی شدت میں اسکول جانا، کلاس رومز میں مناسب حرارت کی کمی، اور طلباء کو پڑھائی کے لیے تیار کرنا ان کے لیے چیلنجز پیدا کرتا ہے۔ جب طلباء بیماری یا سردی کی وجہ سے غیر حاضر رہتے ہیں، تو اساتذہ کو دوبارہ سے انہیں پڑھائی میں شامل کرنے کی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ اس سب کا اثر تعلیمی معیار پر پڑتا ہے، جس کا نقصان بالآخر طلباء کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔
نومبر سیشن کا تعلیمی نظام کشمیر کے موسمی حالات سے ہم آہنگ تھا اور طلباء کے لیے زیادہ سازگار ماحول فراہم کرتا تھا۔ جب تعلیمی سال کا آغاز نومبر میں ہوتا تھا، تو سردیوں کی چھٹیاں اس دوران آتی تھیں جب شدید برف باری اور سردی ہوتی تھی۔ اس طرح طلباء کو آرام کرنے اور سردیوں کی شدت سے محفوظ رہنے کا موقع ملتا تھا۔ نومبر سیشن کی بحالی سے طلباء کو نہ صرف بہتر تعلیمی ماحول میسر آئے گا بلکہ ان کے تعلیمی سال کی تیاری کے لیے بھی مناسب وقت ملے گا۔
حکومت کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ کشمیر کے مخصوص موسمی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی سیشن کے حوالے سے بہتر فیصلے کرے۔ مارچ سیشن کا فیصلہ کرنے میں شاید نیک نیتی کا عمل دخل تھا، لیکن اس کے نتائج نے ظاہر کیا ہے کہ یہ فیصلہ یہاں کے زمینی حقائق کے مطابق نہیں تھا۔ والدین، اساتذہ، اور تعلیمی ماہرین کا مطالبہ ہے کہ حکومت نومبر سیشن کو دوبارہ متعارف کروائے تاکہ تعلیمی معیار کو بہتر بنایا جا سکے اور طلباء کو ان کی تعلیم میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے سازگار حالات فراہم کیے جا سکیں۔
مارچ سیشن کے تحت طلباء کو محدود وقت میں زیادہ سے زیادہ تعلیمی مواد سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ طلباء جو سردیوں کی وجہ سے پہلے ہی جسمانی اور ذہنی مشکلات کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں، ان کے لیے تعلیمی دباؤ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ ان حالات میں طلباء کی تعلیمی کارکردگی پر منفی اثر پڑتا ہے اور ان کی کامیابی کی شرح کم ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس، نومبر سیشن میں طلباء کو پورے سال کا وقت ملتا تھا جس میں وہ اپنی پڑھائی کو بہتر انداز میں مکمل کر سکتے تھے۔
حکومت کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ کشمیر کی تعلیمی ضروریات باقی ملک سے مختلف ہیں۔ یہاں کے تعلیمی نظام کو مقامی حالات اور موسمیاتی مشکلات کے مطابق ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو طلباء، والدین، اور اساتذہ کی رائے کو مدنظر رکھ کر ایک موزوں تعلیمی سیشن کے حوالے سے پالیسی تیار کرنی چاہیے۔ اس سے نہ صرف تعلیمی معیار میں بہتری آئے گی بلکہ والدین کا اعتماد بھی بحال ہوگا، جو اپنے بچوں کی تعلیم کے حوالے سے بہتر مستقبل کی امید رکھتے ہیں۔
مارچ سیشن کو ختم کرکے نومبر سیشن کی بحالی سے نہ صرف تعلیمی نظام میں استحکام آئے گا بلکہ طلباء کو مناسب وقت میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع بھی ملے گا۔ یہ قدم کشمیر کے تعلیمی نظام کے لیے ایک مثبت تبدیلی ثابت ہو سکتا ہے، جو طلباء کی تعلیمی کارکردگی میں بہتری لائے گا اور انہیں تعلیمی میدان میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرے گا۔
کشمیر کی تعلیمی ترقی کے لیے یہ ضروری ہے کہ حکومت تعلیمی پالیسیوں کو زمینی حقائق کے مطابق ترتیب دے۔ تعلیمی نظام کا مقصد صرف کتابی علم فراہم کرنا نہیں بلکہ طلباء کی ذہنی، جسمانی، اور اخلاقی ترقی کو یقینی بنانا ہے۔ مارچ سیشن نے ثابت کیا ہے کہ یہ سسٹم کشمیر کے مخصوص موسمی حالات کے لیے مناسب نہیں ہے۔ یہ وقت ہے کہ حکومت اس حوالے سے سنجیدگی سے غور کرے اور نومبر سیشن کو دوبارہ متعارف کروائے تاکہ کشمیر کے طلباء کو بہترین تعلیمی مواقع فراہم کیے جا سکیں اور ان کے مستقبل کو روشن بنایا جا سکے۔
اگر حکومت نے اس مطالبے کو سنجیدگی سے لیا اور نومبر سیشن کو دوبارہ نافذ کیا، تو یہ نہ صرف تعلیمی معیار کو بہتر بنائے گا بلکہ والدین، اساتذہ، اور طلباء کے درمیان اعتماد کی بحالی کا سبب بنے گا۔ کشمیر کے مخصوص موسمی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی سیشن کا تعین کرنے سے ہی تعلیمی نظام کو کامیابی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے، اور یہی کشمیر کے تعلیمی مستقبل کے لیے بہترین راستہ ہے۔